...
Show More
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
We The Living by Ayn Rand
مصنفہ کی خوش قسمتی رہی کہ وہ روسی تھی اور بعد میں وہ امریکہ ہجرت کر گئی۔ اس طرح سے اس نے کمیونزم اور کیپیٹلزم دونوں کا مشاہدہ کیا۔ اور فلسفے کی شاگرد ہونے کے ناطے معاملے کی تہہ تک پہنچی اور فکر کی خرابی کو سمجھ کر بیان کیا۔
مصنفہ نے جس دور کی کہانی بیان کی ہے وہ لینن کا دور تھا۔ انقلاب روس آچکا تھا۔ لینن انقلاب کا ہراول دستے کا سپاہی تھا۔ کامیاب انقلاب کے بعد کمیونسٹ پارٹی کا اقتدار پر مکمل قبضہ ہوگیا۔ اور لینن صدر بن گیا۔ اقتدار حاصل کرنے کے پیمانے کچھ اور ہوتے ہیں اور حکومت چلانے کے تقاضے کچھ اور۔ اسی تضاد کو مصنفہ نے بیان کیا ہے۔ مکمل اقتدار نے Totalrianism کو جنم دیا جس میں حکومت کو لامحدود اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں اور فرد مکمل طور پر ریاستی جبر کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی المیے کو مصنفہ نے بیان کیا ہے۔ کیونکہ کمیونزم نے زندگی کے تمام شعبے اور فلسفہ کو متاثر کیا ہے اس لئے اس کے اثرات ہر جگہ نمایاں ہے
مصنفہ کا یہ ناول قدرے آسان ہے اور تمثیل سادہ ہے۔ کردار زندگی کے قریب تر ہیں۔ سوانحی تجربات کا عکس اس ناول میں نمایاں ہے۔ لینن کے دور میں فکری آزادی کا گلا گھونٹا گیا۔ ایک آزاد خیال فرد کے لئے زندگی کتنی مشکل تھی۔ اس کا حال ناول میں ہے۔ کمیونزم میں یکسانیت نے کتنی بدصورتی پیدا کی۔ اس کی گواہی مصنفہ دیتی ہے۔ محبت جیسے فطری تقاضے بھی ریاست سے ٹکراتے ہیں۔
کمیونزم سے لینن ازم اور پھر اسٹالن ازم تک فلسفہ کیسے پہنچا۔ المیہ کسی یونانی المیے سے کم نہیں اگر کوئی بیان کرے۔ سرخ سلام کو سرخ فیتے نے کیسے سرخ کیا ہے۔ کاش کوئی اسے بھی بیان کرے۔
کمیونزم میں کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس ناول کو پڑھتے ہوئے جارج آرویل، اور الیکزینڈر سولینسٹن یاد آتے ہیں۔
اس ناول میں بھی بہت کچھ ہے اور یہ ناول آج بھی Relateable ہے۔ خود پڑھیں اور اپنی آراء خود قائم کریں۔
از Faisal Majeed
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
We The Living by Ayn Rand
مصنفہ کی خوش قسمتی رہی کہ وہ روسی تھی اور بعد میں وہ امریکہ ہجرت کر گئی۔ اس طرح سے اس نے کمیونزم اور کیپیٹلزم دونوں کا مشاہدہ کیا۔ اور فلسفے کی شاگرد ہونے کے ناطے معاملے کی تہہ تک پہنچی اور فکر کی خرابی کو سمجھ کر بیان کیا۔
مصنفہ نے جس دور کی کہانی بیان کی ہے وہ لینن کا دور تھا۔ انقلاب روس آچکا تھا۔ لینن انقلاب کا ہراول دستے کا سپاہی تھا۔ کامیاب انقلاب کے بعد کمیونسٹ پارٹی کا اقتدار پر مکمل قبضہ ہوگیا۔ اور لینن صدر بن گیا۔ اقتدار حاصل کرنے کے پیمانے کچھ اور ہوتے ہیں اور حکومت چلانے کے تقاضے کچھ اور۔ اسی تضاد کو مصنفہ نے بیان کیا ہے۔ مکمل اقتدار نے Totalrianism کو جنم دیا جس میں حکومت کو لامحدود اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں اور فرد مکمل طور پر ریاستی جبر کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی المیے کو مصنفہ نے بیان کیا ہے۔ کیونکہ کمیونزم نے زندگی کے تمام شعبے اور فلسفہ کو متاثر کیا ہے اس لئے اس کے اثرات ہر جگہ نمایاں ہے
مصنفہ کا یہ ناول قدرے آسان ہے اور تمثیل سادہ ہے۔ کردار زندگی کے قریب تر ہیں۔ سوانحی تجربات کا عکس اس ناول میں نمایاں ہے۔ لینن کے دور میں فکری آزادی کا گلا گھونٹا گیا۔ ایک آزاد خیال فرد کے لئے زندگی کتنی مشکل تھی۔ اس کا حال ناول میں ہے۔ کمیونزم میں یکسانیت نے کتنی بدصورتی پیدا کی۔ اس کی گواہی مصنفہ دیتی ہے۔ محبت جیسے فطری تقاضے بھی ریاست سے ٹکراتے ہیں۔
کمیونزم سے لینن ازم اور پھر اسٹالن ازم تک فلسفہ کیسے پہنچا۔ المیہ کسی یونانی المیے سے کم نہیں اگر کوئی بیان کرے۔ سرخ سلام کو سرخ فیتے نے کیسے سرخ کیا ہے۔ کاش کوئی اسے بھی بیان کرے۔
کمیونزم میں کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس ناول کو پڑھتے ہوئے جارج آرویل، اور الیکزینڈر سولینسٹن یاد آتے ہیں۔
اس ناول میں بھی بہت کچھ ہے اور یہ ناول آج بھی Relateable ہے۔ خود پڑھیں اور اپنی آراء خود قائم کریں۔
از Faisal Majeed